1) غریب نائی کی کہانی 2) قاضی اور شاگرد نصیحت آموز کہانی قاضی کا سوال|Bright Stories Club

(1)

غریب نائی



 ایک گاؤں میں غریب نائی رہا کرتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔


مشکل سے گزر بسر ہورہی تھی۔ اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا۔ نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ صرف ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔ جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا.


ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا۔


اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔

وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔


لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔


اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔ جب وہ شخص اس نائی کے پاس سے گزرا اوراسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا توغصے سے بولا !


" اوئے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے۔

ساڈی جان تے بنی اے، تے تو ایتھے سکون نال لما پیا ہویا ایں"۔۔(ہماری ہر چیز اجڑ گئی ہے اور تم یہاں سکوں سے سو رہے ھو ؟)


یہ سن کرنائی بولا ! 

لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے"(آج تو غربت کا اصل مزہ آیا ہے )


جب میں نے یہ کہانی سنی تو ہنس پڑا مگر پھر ایک خیال آیا  کہ شاید روز محشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔


جب تمام انسانوں سے حساب لیا جائے گا۔

ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔

دو وقت کی روٹی، کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔


ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔

پلازے، دکانیں، فیکٹریاں،  گاڑیاں،  بنگلے،  سونا اور زیوارات

ملازم ۔ پیسہ ۔ حلال حرام ۔ عیش و آرام ۔ زکوۃ  ۔ حقوق اللہ۔ حقوق العباد۔۔۔۔

اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہوں گے۔


تب شاید اسی نائی کی طرح غریب ان امیروں کو دیکھ رہے ہو گے۔

چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے۔۔۔۔!


"اج ای تے غربت دی چس آئی اے ۔۔۔۔


"اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ہر ہر نعمت کا شکر ادا کرنے کی اور اللہ کی رضا کے مطابق استعمال اور تقسیم  کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین


(2)

قاضی اور شاگرد ۔نصیحت آموز کہانی۔ قاضی کا سوال



ایک قاضی نے اپنے شاگردوں کا امتحان لینے کے لئے ان کے سامنے ایک مقدمہ رکھا اور ان کو اپنی رائے لکھنے کو کہا

ایک شخص کے گھر مہمان آئے. اس نے ان کی خاطر مدارات کی. اپنے ملازم کو دودھ لینے بھیجا تاکہ مہمانوں کے لیے کھیر بنائی جائے. ملازم دودھ کا برتن سر پر رکھے آرہا تھا کہ اوپر سے ایک چیل گذری جس کے پنجوں میں سانپ تھا. سانپ کے منہ سے زہر کے قطرے نکلےجو دودھ میں جاگرے. مہمانوں نے کھیر کھائی تو سب ہلاک ہوگئے. اب اس کا قصوروار کون ہے۔

پہلے شاگرد نے لکھا کہ یہ غلطی ملازم کی ہے اسے برتن ڈھانپنا چاہیے تھا. لہذا مہمانوں کا قتل اس کے ذمہ ہے اسے سزا دی جائے گی... قاضی نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ملازم کو برتن ڈھانپنا چاہیے تھا. لیکن یہ اتنا بڑا قصور نہیں کہ اسے موت کی سزا دی جائے۔

دوسرے شاگرد نے لکھا اصل جرم گھر کے مالک کا ہے اسے پہلے خود کھیر چکھنی چاہیے تھی. پھر مہمانوں کو پیش کرنی چاہیے تھی. قاضی نے یہ جواز بھی مسترد کر دیا. تیسرے نے لکھا یہ ایک اتفاقی واقعہ ہے. مہمانوں کی تقدیر میں مرنا لکھا تھا. اس میں کسی کو سزا وار قرار نہیں دیا جا سکتا ہے. قاضی نے کہا کہ یہ کسی جج کی اپروچ نہیں ہونی چاہیے. جج اگر مقدمات تقدیر پر ڈال دے گا تو انصاف کون کرے گا۔

چوتھے نے کہا کہ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ یہ سارا منظر دیکھا کس نے.کس نے چیل کے پنجوں میں سانپ دیکھا. کس نے سانپ کے منہ سے زہر نکلتا دیکھا. اگر اس منظر کا گواہ ملازم ہے تو وہ مجرم ہے. اگر گواہ مالک ہے تو وہ مجرم ہے. اور اگر کوئی گواہ نہیں تو جس نے یہ کہانی گھڑی ہے وہ قاتل ہے. قاضی نے اپنے چوتھے شاگرد کو شاباش دی اور صرف اسے منصب قضا کا اہل قرار دیا۔

Post a Comment

1 Comments