Kash Tanha Na Jati Girl's Sad story کاش تنہا نہ جاتی | Bright Stories Club

کاش تنہا  نہ جاتی



ہم ملتان میں رہا کرتے تھے جبکہ چچا جان کا گھر لاہور میں تھا۔ میری نسبت بچپن میں چچا عابد کے بیٹے ارشاد سے طے تھی۔ وہ انجینئرنگ کالج میں پڑھ رہے تھے اور کبھی کبھی امی ابو سے ملنے سے آ تے تھے۔

ارشادخوبرونوجوان تھے۔ وہ مجھے پسند کرتے تھے۔ میں بھی ان کو چاہتی تھی۔ ایف اے پاس کرلیاتو چچاچچی شادی کی تاریخ لینے آگئے۔ میں نے ان کو خوش دلی سے خوش آمدید کہا۔ اس مرتبہ ارشاد نہیں آئے تھے، ان کے والد ین آ ئے تھے۔ میرادل بے چینی محسوس کرنے لگا کیونکہ مجھے ارشادکا انتظار رہتا تھا۔

چچینے بتایا کہ ارشاد کے فائنل امتحان ہورہے ہیں، اس لیے وہ نہیں آیا۔ خیر شادی کی تاریخ طے ہوگی ۔ مٹھائی بانٹ دی گئی اور پھر شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔

میں بہت خوش تھی کی زندگی کی طرف جارہی ہوں ۔ چچاجان کا گھردیکھا بھالا تھا کوئی اجنبیت نہ تھی ۔ شاید اسی لیے میں رخصتی کے وقت نہیں روئی تھی جبکه امی ابورورہے تھے اور میں سوچ رہی تھی کہ  چچاچچی مجھ سے ماں باپ جیسا پیار کرتے ہیں۔ پھر بھلا مجھے رونے دھونے کی کیا ضرورت ہے۔ جب امی ابو کی یاد آئے گی، ان سے ملنے آ جاؤں گی ۔ لاہور سے ملتان کا سفرصرف پانچ گھنٹےکا ہی تو ہے۔

شادی کے کچھ دن تو بہت سکون سے گزرے، نئی خوشیوں میں وقت گزرنے کا پتہ ہینہ چلا۔ اس دوران ایک مرتبه ی امی ابوبھی لاہور آئے اور تین دن رہ کر چلے گئے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ارشاد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونے لگا۔ وہ ملازمت کی تلاش میں مصروف ہو گئے ۔ ایک ماہ کے بعد ان کو نوکری مل گئی۔ اب وہ صبحکے گئے شام کو گھر لوٹتے۔ تھکے ہارے آکر لیٹ جاتے صبح جلدی آفس جانا ہوتا تھا۔ رات کو جلدی سو جاتے۔

سارا دن گھر میں اکیلی بوریت محسوس کرنے لگی۔ ساس گھر کے کاموں میں مگن ہو جاتی ، سسرصاحب اپنے کمرے میں اخبار ورسائل سے دل بہلاتے یا پھر سوجاتے ۔ گھر میں بچے بھی نہ تھے کہ ان کے ساتھ ہنسبول کر دل بہلا لیتی۔ ایک دیور جو بیرون ملک پڑھنے گیا ہوا تھا اورنند کی شادی ہو چکی تھی ، وہ اپنے گھر میں رہتی تھی۔

 

میرا میکہ بھر پور تھا، ہم چھ بہن بھائی تھے، مجھ سمیت چار بہنیں اور دو بھائی ۔ گھر میں ہمہ وقت ہلا گلا اور ہنگامہرہتا تھا۔ میں رونق اور شور شرابے کی عادی تھی۔ خاموشی اور تنہائی مجھے سخت ناپسندتھی جو سانپ کی طرح ڈستیتھی۔

اکثر ارشاد سے شکوہ کرتی کہ آپ کے گھر میں اتنا سناٹا ہوا تھا کہ کل بھی نہیں بولتے۔ مجھے بڑی وحشت ہوتی ہے، سارا دن آپ کے انتظار میں گزر جاتا ہے۔ وہ کہتے کہ ملازمت لازمی ہے۔ ملازمت نہ کروں تم کو کیسے خوشیاں دے پاؤں گا۔ لاہور آئے اور تین دن رہ کر چلے گئے۔

شادی کو چھ ماہ گزر گئے تو میرا پیا د صبر لبریز ہو گیا۔ میں چاہتا کہ میکے پڑ کر چلی جاؤں اور بہن بھائیوں کے ساتھ ہلا گلا میں کھو جاؤں ۔ کئی بار دبے لفظوں میں ارشاد سے بھی ذکر کیا کہ ملتان جانے کو دل چاہتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا۔ اکیلی کیسے جائیں گی۔ کچھ دنوں بعد مجھے پچھٹی ملے گی، پھر لے جاؤں گا۔

ان کچھ دنوں کے انتظار میں بھی کافی دن گزر گئے ۔ ان کو چھٹی نہ لی اور میں میکے کی یاد میں سکتی رہی۔ ایک فون کیا۔ انہوں نے ڈھارس دی کہ صبر کرو، شروع شروع میں اپنے گھر رہنا اچھا ہے، جلدی جلدی میک آنالٹ کی کوسسرال والوں کی نظروں میں گرا دیتا ہے۔

سال بعد جا کر کہیں ارشاد و فرصت ملی۔ انہوں نے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور مجھے میکے جانے کی نوید سنائی۔ میرے خوشی سے ہاتھ پاؤں پھول گئے ، مجھ میں نہ آتا تھا کہ تیاری کیسے کروں۔

چچ نے ہمت بندھائی ، میرا بیگ تیار کیا اور ہم میاں بیوی بذری ریں ملتان کو روانہ ہو گئے۔

سال بعد گھر کو دیکھا تو گزری یادیں تن من سے لپٹ گئیں۔ خوشی سے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ وہی در و دیوار، وہی آنگن، آنگن میں لگے پودے اور نیم کا درخت جس پربح سویرے اور سرشام چڑیاں چہاتی تھیں تو روح فرحت کا احساس جاگ جاتا تھا۔ آج بھی بہن بھائیوں کی چہکاروں سے گھر جاگ رہا تھا۔ ام سے جانتے ہی لپٹ گئی حالانکہ گھر میں مجھے کوئی تکلیف تھی پھر بھی میری سسکیاں بندھ گئیں۔

ہفتہ پلک جھپکتے گزر گیا اور واپس جانے کا دن آ گیا۔ لگتا تھا جیسے ابھی آئی تھی۔ سانس بھی نہ لے پائی تھی کہ پھر سے رخت سفر باندھنا پڑ گیا۔ امی نے کہا بھی اگر ارشاد کی چھٹی نہیں ہے تو تم رہ جاؤ، اسے

جانے دو۔ کچھ دن اور رہو، ہم خود وا میں چھوڑ آئیں گے، لاہور کونسان دور ہے۔ لیکن ارشاد کی مرضی نہیں تھی ، وہ مجھے ساتھ لے جانا چاہتے تھے تبھی مجھے ان کا خراب موڈ دیکھ کر جانا پڑا۔

ماں باپ کے گھر کی دہلیز پر قدم رک گئے اور آنکھوں میں بے تحاشہ آنسو بہنے لگے جن کو میں نے چار سے چھپالیا۔

واقعی لڑکیاں پرایا دن ہوتی ہیں، لاکھ ماں باپ پال پوس کر بڑا کریں، جانا تو نہیں پرائے گھرتی ہوتا ہے۔

شروع شروع میں میکے کیا دن رات چکیاں لیتی تھی ۔ رفتہ رفتہ اس کیفیت میں کی آنے کی۔ پھر اللہ نے گود ہری کر دی اور میں بچے کی پرورش میں محو ہوئی۔ اللہ نے پہلا بیٹا دیا تھا۔ سسرال میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ امی بھی آئی ہوئی تھیں۔ چلے تک رہ کر واپس چلی گئیں اور مجھے نوزائیدہ کی پرورش کے کچھ گر سکھا

 

میں نے عدیل کی پرورش میں گم تھی ۔ اب ای ابو بہن بھائی سب پیچھے رہ گئے۔ ہروقت عدیل کو گود میں لے رہی تھی۔ میکہ بھوانا جاتا تھا۔ پھر بھی عورت کے دل سے بھی میک کی یاد پوری طرح نہیں ہوتی۔

وقت گزرتا رہا۔ میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔ اس دوران ملتان جانا نہ ہوسکا۔ اسی دو تین بار کرل گئیں ۔ انہیں فون کرتیں تو شکوہ کرتیں۔ بابی تم تو بڑی کھوکھلیں ۔ شادی کے بعد بس لا ہور کی ہو کر رہ گئی ہو بھی جاری یا نہیں ہوتی ۔ میں جواب دیتم لوگ بھی شور دل ہوں۔ اگر میں بچوں کی وجہ سے نہیں پاتی تو تم لوگ ہی آجاؤ تم کو کیا مجبوری ہے جنہیں آتی ہو۔

کیسے آئیں۔ کاری اسکول کی بھی تو مجبوری ہے۔ جب سب کی چھٹیاں ایک ساتھ ہوں گی تو آجائیں گے کبھی نہیں بولائیں گے تب آئیں گے نا۔

ایک روز سوچ رہی تھی۔ اے کاش وہاں سے کیا شادی کا بلاوا ہی آجائے۔ دعا کی قبولیت کا وقت تھا۔ اسی دم ای کا فون آ گیا کہ نوید کی گئی ہے اور تم لوگوں نے شریک ہوتا ہے۔ ارشاد آئے تو میں نے ان سے کہا۔ خوشی سے نہال تھی کہ آخر اللہ نے ملتان جانے کا موقع عطا کر دیا۔ توقع تھی کہ ارشاد کہیں گے ، چلو 

تیاری باندہ لیکن یہ آرزو ہی رہی۔ اس روز نھے میاں کو بخار چڑھ گیا تبھی انہوں نے جانا متروک کر دیا اور اپنی ماں سے کہا۔ امی جان آپ نویدکی مستی میں چلی جائے۔ ہم شادی میں جائی گے۔ ہمارے بیٹے کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو سفر میں مزید بگڑ جائے۔ ا ی

ن کر میری خوشی کی کلیوں پراوں پڑگئی ۔ ساری مسرت ہواہوگئی ۔ ارشاد سے کہا کہ نتھے کی طبیعت اتنی زیادہ خراب نہیں ہے۔ ہم پانچ چھ گھنٹے کا سفر آسانی سے طے کر لیں گے۔ کہنے لگے میں لاہور سے ملتان ڈرائی نہیں کرسکتا۔ ٹرین میں مشکل ہوگی ۔ امی ابوکو جانے دو۔ ہم شادی میں شریک ہوجائیں گے۔

میں چپ ہوگئی، ان سے بحث کر فی فضول تھی۔ جانتی تھی کہ ان کا سفر کرنے کا موڈ نہیں ہے۔ زیادہ اصرارکروں تو اکھڑ جائیں گے۔ صبر کے گھونٹ پی کر خاموش ہوگئی۔

چھاچھی ملتان چلے گئے اور میں حسرت سے ان کو دیکھتی رہ گئی ۔ تین دن بعد وہ لوٹ آئے۔ ای کو میرے شریک نہ ہونے کا دکھ تھا۔ آخر کوئی بہن کی گئی تھی۔ انہوں نے مجھے فون کیا۔ میری آواز بھی ہوئ تھی تبھی انہوں نے ڈھارس دی کوئی بات نہیں گڈو، پریشان نہ ہو۔ بے شک تمہارے نہانے سے کی محسوس ہوئی ہے لیکن بچے کی صحت کا معاملہ ہے۔نوید کی شادی ایک ماہ بعد ہے تم آجاتا ساری کلفت دور ہوجائے گی۔

وقت تیزی سے گزرتا ہے۔ ایک ماہ بھی گزر گیا اور پھر نوید کی شادی کا کارڈ آگیا۔ میں نے جلدی جلدی تیاری باندھ لی۔ جانے سے پہلے دو تین بار میاں نے اشارتا کہا کہ ملتان میں سخت گرمی ہے کہیں

کے پیار نہ پڑ جائیں، اچھی طرح سوچ لو۔ مگر میں تو تھی ہوئی تھی۔ تنک کر بولی سوچ لیا ہے۔ سگی بہن کی شادی ہے اور میں نہ جاؤں؟ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ اگر آپ کی بہن کی شادی ہوتی تو کیا آپ شریک ہوتے۔ ارشاد کو چھین لی۔

بادل نخواستہ تیاری باندھی اور ہم رکشہ میں بیٹھ کر ریلوے اسٹیشن آ گئے۔ مجھے زنانہ ڈبے میں سیٹ لی تب انہوں نے کہا۔ میں تمہارے

ابو کوفون کر دیتا ہوں، وہ تم کو اسٹیشن آ کر اتار لیں گے۔ میں کل پرسوں تک آجاؤں گا۔ مجھے زیادہ چھٹی نہیں ملی ہے۔

 

میں نے جواب دیا۔ ٹھیک ہے، اتنے دن میں وہاں رہ لوں گی، آپ شادی ختم ہوتے ہی واپس چنے کا حکم دے دیں گے۔ ارشاد نے مجھ کو زنانہ ڈبے میں سوار کر دیا اور اب کو فون کر دیا۔ ٹرین اور ڈبہ بھی بتادیا۔

میں خوشی خوشی ڈبے میں بیٹھ گیا کسی قسم کا خوف محسوس نہ کیا۔ بس جانے کی سرشاری میں ڈوبی ہوئی تھی جبکہ ارشاد مجھے اکیلے بھنے پر تفکر لگ رہے تھے۔ ان دنوں چا چی دونوں فلو کا شکار لگ رہے تھے، وہ نہیں جا سکتے تھے۔ بہرحال گارڈ نے سیٹی دی، ٹرین چلے گی اور دور تک ارشاد بچوں کو ہاتھ ہلا ہلا کر خداحافظ کہتے نظر آتے رہے۔ یہاں تک کہ ٹرین نے رفتار پکڑ لی اور وہ نظروں سے اوتھل ہوگئے۔

میرا بیٹا تین برس کا تھا اور بیٹی سال بھر کی تھی۔ جگہ کی تنگی کی وجہ سے برابر بھی مسافر عورت نے میرے بیٹے کو گود میں بٹھا لیا تھا۔ وہ مسافر عورت کی گود میں سوگیا جبکہ بیٹی کو میں نے اپنی گود میں سلا لیا۔

دو گھنٹے کے بعدٹرین رکی تھی صوفی رونے لگی۔ اس کا پین گیلا ہو گیا تھا۔ میں نے مسافر عورت سے کہا تم ذرا میرے کہنے کوتی امور میں واش روم جا کر بھی کانپکین بدل لوں۔

میں ذرا دیر بعد جب پی تبدیل کر کے واپس آئی تو وہ مسافر عورت جس کو میں نے بیٹا تھما دیا تھا۔ اپنی سیٹ پر نتھی۔ ادھر ادھر دیکھا، جلدی میں تھوڑا سا آگے بڑھی اور سارا ڈبہ دیکھ لیا، عورت کا نام ونشان

اب میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ ارگرد کی مسافر عورتوں سے پوچھالیکن کسی نے کچھ نہ بتایا۔ بھی نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ افسوس کہ میں نے مسافر عورت کا نام پتا تک نہ پوچھا تھا۔ بی بھی نہ پوچھا تھا کتم کہاں سے آ رہی ہو اور کہاں جارہی ہو۔

جب میں رونے گئی تو مجھے روتے دیکھ کر کھڑکی کے پاس بیٹھی عورت اٹھ کر میرے پاس آئی اور رونے کی وجہ پوچھی ۔ میں نے کہا کہ اپنے ساتھ بھی عورت کو میں نے بیٹا دیا تھا ۔ وہ اسے گود میں لے کر بیٹھی تھی۔ پر سوگیا تھا۔ میں واش روم تک گئی تھی۔ واپس آئی تو عورت میرا بچہ لے کر غائب ہوگئی ۔ وہ بولی کہ ایک عورت ابھی پچھلے ایشن پر اتری ہے، اس کی گود میں تین سال کا بچہ تھا۔ کیا اس نے نیلے رنگ کا

سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ہاں وہی عورت تھی مگر اب کیا کروں ۔ زنجیر ریلوے ٹرین رک جائے گی۔ پولیس آئے گی تو اس کو بتاتا کہ عورت تمہارے پہلے رات گئی ہے۔ میں نے ٹرین کی زنی تھی۔ بہت زور گا اگر وہ شاید زنگ آلودہ ہو چکی تھی۔ مجھ سے کمپنی ندگی بھی ادھر سے ایک کولڈ رنگ والے کا گزر ہوا۔ اس نے مجھے پریشان زنجیر نیچے دیکھا تو پورا زور لگا کر بھی دی۔ ٹرین آہستہ آہستہ ہوتے ہوتے رک گئی۔

زمین کا متعلقہ مکہ آیا۔ میں رورہی تھی ۔ عورتوں نے بتایا کہ پچھلے سٹیشن پر کوئی مسافر عورت ان کا بیٹا اٹھا کر اتر گئی ہے۔ ڈبے میں شور سا چ گیا۔ پولیس آفیسر نے مجھے نیچے اتار لیا۔ پھر انہوں نے میرے شوہر کو فون کر دیا اور اپنے طور پر جو ہوسکتا تھا کیا مگر وہ عورت نملی۔ جانے وہ میرے لخت جگر کو لے کر کہاں چلی گئی کی تلاش بسیار کے باوجودکوئی سراغ نیل سکا۔ہی ایک ایسازم تھا جس نے مجھے جیتے جی ماردیا۔ آج اس واقعے کو میں برس سے زیادہ بیت گئے ہیں مگر یہ زخم جیسے پہلے دن کی طرح آج بھی ویسے ہی ہرا ہے اور جب تک میں زندہ ہوں، یہ ہرا ہی رہے گا۔ مت پوچھئے کہ ارشاد کا کیا حال ہوا۔

آج زمانے کی ساری خوشیاں، تمام باتیں ہمارے پاس ہیں لیکن تھے ارسلان کی جگہ کوئی شے نہ نے کی۔ وہ آج بھی میرے دل میں چمکتا ہے اور اس کی یاد مجھے سی میں قرار نہیں لینے دیتی۔ میری بانہیں اس کو گود میں جھرنے کو ترستی ہیں۔ کاش میں اپنے شوہر کے بغیر اکیلے سفر نہ کرتی تویسان پیش نہ آتا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

Post a Comment

1 Comments