Three horror stories | پُراسرار حویلی | خوفناک بنگلہ | پُراسرار جزیرہ

 پُراسرار حویلی



بچے جب حویلی کے سامنے سے گزرے تو حویلی میں روشنی دیکھ کر حیران رہ گئے

عمار،حسن اور زہرا کو آج ٹیوشن پڑھنے کے بعد واپسی پر دیر ہو گئی۔اندھیرا چھا چکا تھا۔عمار کے منع کرنے کے باوجود حسن اور زہرا نے گھر جانے کے لئے مختصر راستے کا انتخاب کیا۔

مجبوراً عمار کو بھی اُن کے ساتھ جانا پڑا۔اس راستے پر ایک خوفناک ویران حویلی بھی آتی تھی۔اُس شام تینوں بچے جب حویلی کے سامنے سے گزرے تو حویلی میں روشنی دیکھ کر حیران رہ گئے۔زہرا فوراً بولی:”ہمیں اندر جا کر دیکھنا چاہیے۔

ہم نے آج تک اس گھر میں روشنی نہیں دیکھی۔“

زہرا کے توجہ دلانے پر وہ تینوں روشنی کی طرف بڑھنے لگے۔دبے قدموں کے ساتھ وہ سب حویلی میں داخل ہوئے اور اُس روشن کمرے کی جانب بڑھنے لگے۔کمرے کی کھڑکی کے قریب پہنچ کر انھوں نے چپکے سے اندر جھانکا تو اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔

چار افراد،جن کے پاس مختلف رنگوں کے تھیلے پڑے تھے اور وہ ڈھیر ساری رقم گننے میں مصروف تھے۔اُن کے پاس بہت سا اسلحہ بھی رکھا تھا۔یہ سب دیکھ کر بچوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔عمار نے اپنے منہ پر اُنگلی رکھ کر حسن اور زہرا کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور وہ تینوں دبے قدموں حویلی سے باہر نکلے اور دوڑ لگائی اور گھر پہنچ کر دم لیا۔

بچوں نے انتہائی بہادری اور عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام حالات سے اپنے والد انسپکٹر اکرم کو آگاہ کیا اور حویلی کے اندر کا آنکھوں دیکھا حال سنا دیا۔

انسپکٹر صاحب نے فوراً تھانے فون کیا اور پولیس فورس کو متعلقہ حویلی کا پتا سمجھا کر خود بھی اپنی جیپ میں بیٹھے اور حویلی کی جانب روانہ ہو گئے ۔

اُن کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی پولیس نے حویلی کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔کچھ ہی دیر بعد پولیس کی نفری کے ساتھ انسپکٹر اکرم اُس پُراسرار حویلی میں داخل ہوئے اور اُن چاروں مشکوک افراد کو گرفتار کرکے باہر لے آئے۔بعد میں انکشاف ہوا کہ اُن چاروں مجرموں کا تعلق خطرناک جرائم پیشہ گروہ سے تھا۔

اگلے روز کے اخبارات میں جہاں اُن چار مجرموں کی تصاویر چھپی تھیں،وہیں پولیس کی جانب سے عمار،حسن اور زہرا کو بھی سراہا گیا تھا،جن کی بدولت اُن جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری میں مدد ملی تھی۔پولیس کے اعلیٰ افسران نے تینوں بچوں کو تعریفی اسناد اور نقد انعامات سے نوازا۔




خوفناک بنگلہ



ان کے گھر سے کچھ دور ایک پرانی کھنڈر نما عمارت جو بہت عرصے سے ویران تھی

حامد،حارث اور ماریہ تینوں بہن بھائی تھے۔انھیں سیر کرنے کا اور ڈراؤنی کہانیاں پڑھنے اور سننے کا بہت شوق تھا۔

ان کے گھر سے کچھ دور ایک پرانی کھنڈر نما عمارت جو بہت عرصے سے ویران تھی۔

ایک دن انھوں نے فیصلہ کیا کہ تینوں سیر کے بہانے باہر جائیں گے اور ایک رات کھنڈر میں گزار کر واپس آجائیں گے۔امی ابو کو تو اصل بات نہیں بتائی جا سکتی ورنہ وہ منع کر دیتے۔

آخر مقررہ رات آپہنچی اور وہ گھر سے نکل گئے۔وہ کھنڈر کہانیوں کے کھنڈرات سے زیادہ خوفناک تھا آج وہاں روشنی بھی ہو رہی تھی۔

ہمت کرکے تینوں ایک ساتھ اندر داخل ہوئے۔اندر ہر چیز گرد اور مٹی سے اَٹی پڑی تھی۔اونچی اونچی دیواروں پر مکڑیوں کے جالے بنے ہوئے تھے اور چھت پر ایک عجیب سی چمک تھی۔

یہ سب کچھ دیکھ کر وہ مزید خوف زدہ ہو گئے۔انھوں نے سامنے دیکھا تو پانچ کمرے تھے اور ان سب کے دروازے بند تھے۔


حارث ایک کمرے کی طرف بڑھا اور دروازے کو دھکیلا تو وہ ایک ہلکی سی چرمراہٹ کے ساتھ کھلنے لگا۔اسی لمحے ایک بڑا سا پرندہ اس کے سر کے اوپر سے اُڑتا ہوا باہر نکل گیا۔حارث چیخ کر پیچھے ہٹا اور اس نے اوپر دیکھا۔پوری چھت پر چمگادڑیں لٹکی ہوئی تھیں۔

ان کی آنکھیں ہی تھیں جو اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔

اتنے میں وہ دروازہ جو حارث نے کھولا تھا آہستہ آہستہ پورا کھل چکا تھا۔اس کے ساتھ ہی باقی کمروں کے بھی دروازے خود بخود کھلنے لگے۔ وہ تینوں باہر نکلنے کے لئے مڑے تو دیکھا کہ بڑا دروازہ انتہائی خاموشی کے ساتھ بند ہو چکا تھا۔


اچانک دروازوں میں سے دھواں خارج ہونا شروع ہو گیا۔اور پھر دھواں اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ راستہ نظر آنا بند ہو گیا اور ساتھ ہی عجیب عجیب سی آوازیں بھی سنائی دینا شروع ہو گئیں۔ایک عجیب سا ہیولا ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔انھوں نے ڈر کے مارے دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔

اگرچہ اندھیرے اور دھوئیں میں دیکھنا بہت مشکل تھا،لیکن وہ کسی نہ کسی طرح سے دروازے تک پہنچ گئے۔انھوں نے اس خوف ناک منظر کو دیکھنے سے بچنے کے لئے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔تینوں نے مل کر زور لگایا۔دوسری ہی کوشش پر دروازہ کھل گیا اور وہ باہر آکر گرے۔




پُراسرار جزیرہ



ہم ایک ساحلی قہوہ خانے میں بیٹھے تھے۔ شدید سردیوں کی کُہروالی رات تھی۔ آتش دان میں آگ دہک رہی تھی۔ جلتی ہوئی لکڑیوں سے نیلانیلا دھواں اُٹھ رہا تھا۔ آگ سے اٹھنے والے آتشی رنگ ہمارے چہروں پربھی رقصاں تھے۔


ہم ایک ساحلی قہوہ خانے میں بیٹھے تھے۔ شدید سردیوں کی کُہروالی رات تھی۔ آتش دان میں آگ دہک رہی تھی۔ جلتی ہوئی لکڑیوں سے نیلانیلا دھواں اُٹھ رہاتھا۔ آگ سے اٹھنے والے آتشی رنگ ہمارے چہروں پربھی رقصاں تھے۔


ہم سب ملاح تھے۔ کوئی جوان، کوئی بوڑھا، کوئی ادھیڑعمرکاتھا۔ ساحل پت تین بحری جہازلنگر انداز تھے، جنھیں اب تک اگلی منزل کی طرف چل دینا چاہیے تھا۔ساحلی مزدوروں کی ہڑتال کی وجہ سے ہم یہاں پھنس گئے تھے،کیوں ں کہ جب تک مزدور جہازوں پہ لدا سامان اُتاریں، ہماراآگے جاناممکن نہیں تھا۔

یوں ہمارازیادہ وقت قہوہ خانوں میں داستانیں سنتے سناتے گزررہاتھا۔آج سب کی نگاہیں ایک بوڑھے ملاح پرجمی تھیں،جس کے خشک ہونٹ کوئی عجیب وغریب داستان کہنے کومچل رہے تھے۔

ہم یہ داستان سننے کوبے تاب بیٹھے تھے۔

آخر بوڑھے ملاح نے ایک گہری نگاہ ہم سب پر ڈالی،قہوے کاآخری گھونٹ بھرا اور یادوں کی کڑیاں جوڑتے ہوئے بولا:وہ ایسی ہی تاریک،سرداور کُہرآلود رات تھی۔


ہماراجہازسمندری طوفان میں گھِرگیاتھا۔طوفانی لہروں کے تھپیڑوں میں جہازکسی کاغذکی کشتی کی طرح ڈگمگارہاتھا۔جہازکوبچانے کی ہماری سب تدبیریں ناکام ہوگئی تھیں۔ہم جہازکوچھوڑنے کاارادہ کرہی رہے تھے کہ زور کاکڑاکاہوا اور جہازدرمیان سے دوٹکڑے ہوگیا۔

بہت سے لوگ سمندرمیں جاگرے۔میں ڈوبتے جہازکے ایک ستون کاسہارا لیے کھڑاتھا،جوتیزی سے پانی کی تہ میں غرق ہورہاتھا۔میں نے قریب ہی پانی میں تیرتی اپنی بندوق جھپٹی،اتفاق سے ایک چپوبھی مل گیا۔میں نے فوراََ سمندرمیں ایک کشتی پر چھلانگ لگادی۔

عملے چند اورلوگ بھی ڈوبتے اُبھرتے کشتی پرپہنچے کشتی طوفانی لہروں کے رحم وکرم پرنامعلوم منزل کی طرف چل پڑی۔

زندگی اور موت کے اس سفرمیں ایک رات اورایک دن گزرگیا۔ بھوک سے ہمارا بُراحال تھا۔ سمندرکانمکین پانی پی پی کرہمارے حلق میں کانٹے سے نکل آئے تھے۔

دوسری رات کاآخری پہرتھا۔ہم زندگی سے مایوس ہوچکے تھے کہ ہمیں دھندلی سی درختوں کی پرچھائیں نظرآئی۔ہماری اُمیدوں کے دیے ایک دم سے جگمگااُٹھے۔قریب پہنچے تودیکھا سمندرکے بیچوں بیچ ایک جزیرہ تھا۔جیسے ہی کشتی کنارے لگی ہم چھلانگیں مارکراُترے اور کشتی کوگھسیٹ کرخشکی پرلے گئے۔


ابھی ہم اندھیرے میں آس پاس کاجائزہ ہی لے رہے تھے کہ کچھ آہٹیں سنائی دیں،پھرکوئی چیزتیزی سے ہمارے سروں کے اوپرسے گزرگئی۔یہ ایک نیزہ تھا،جوہم سے کچھ دورزمین میں پیوست ہوگیا۔اس کے ساتھ ہی کسی نامعلوم زبان میں ایک نعرہ گونجا۔

ہم جلدی سے زمین پرلیٹ گئے۔میں نے لیٹے لیٹے ہی آواز کی مست گولی چلادی۔ایک چیخ فضامیں گونجی میں نے دوسری گولی چلائی، پھر تیسری ایک اور چیخ بلند ہوئی۔کچھ بھاگتے قدموں کی آوازیں آئیں۔پھرسناٹاچھاگیا۔اسی وقت چاند بادلوں کی اوٹ سے نکل آیاہم محتاط قدموں سے اس طرف بڑھے،جس طرف سے ہم پہ حملہ ہوا تھا۔

دیکھا تووہاں چندقدموں کے نشاں اور خون کے دھبوں کے سواکچھ نہیں تھا۔حملہ آوراپنے زخمی ساتھیوں کولے کربھاگ گئے تھے۔ہم آنے والے خطرے سے نپٹنے کے لیے اِدھر اُدھر کوئی محفوظ گوشہ تلاش کرنے لگے۔اتنے میں اچانک نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمیں چاروں طرف سے وحشی جنگلیوں نے گھیرلیا۔

وہ سب نیزوں سے مسلح تھے اور وحشیانہ انداز میں نعرے لگارہے تھے۔ہمارے پاس سوائے پیچھے ہٹنے کے کوئی چارہ نہ تھا۔ایک وحشی نے نیزے کی انی سے ہمیں اپنے ساتھ چلنے کااشارہ کیا۔ہم سرجھکائے ان کے ساتھ چل پڑے۔بندوق انھوں نے میرے ہاتھوں سے چھین لی تھی۔

کافی دورتک چلنے کے بعد ہم ایک کھلے میدان میں جاپہنچے، جہاں چھوٹی بڑی بہت سی جھونپڑیاں تھیں۔ایک بڑی جھونپڑی کے سامنے ایک لمبے قد اور بھاری جسم کاآدمی کھڑاتھا۔ ہمیں لانے والوں نے اسے کچھ بتایا۔اس نے غضب ناک نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور اپنی زبان میں اپنے ساتھیوں سے کچھ کہتارہا، جس کاخلاصہ ہمارے ایک ساتھی نے ،جویہ زبان تھوڑی بہت سمجھتا تھا، بتایاکہ وہ دونوں جنگلی جومیری بندوق سے زخمی ہوئے تھے مرچکے ہیں۔


اب ہمارے مستقبل کافیصلہ سردارصبح کرے گا۔ہمارے ہاتھ جنگلی بیلوں سے باندھ کرہمیں ایک جھونپڑی میں دھکیل دیا گیا۔باہرنیزہ اُٹھائے پہرے دارموجودتھے۔ صبح ہوئی توہمیں کھانے کوکچھ پھل دیے گئے۔تھوری دیربعد ہمیں لے جاکرایک کھلے میدان میں درختوں سے باندھ دیاگیا۔

ایک طرف آگ کاالاؤروشن تھا۔آگ کے گرد کچھ لوگ عجیب سے گیت گارہے تھے۔سمجھے یہ الاؤ ہمیں جلانے کے لیے دہکایاگیاہے، مگرپھر پتاچلایہ ان مرنے والے جنگلیوں کی آخری رسوم اداکی جارہی ہے۔

یہ رسوم اداکرنے کے بعدچندجنگلی ہماری طرف متوجہ ہوئے۔

ایک جنگلی ہم سے مخاطب ہوااور کچھ کہاجس کامطلب یہ تھاکہ چوں کہ ہم نے ان کے دوساتھیوں کومارڈالا ہے، اس لیے اب ہم بھی مرنے کے تیارہوجائیں۔سردار کے حکم سے کل دیوتاؤں کے حضورہمارے بھینٹ دی جائے گی۔

یہ سنتے ہی ہمارے قدموں تلے سے زمین نکل گئی اور ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے بیوی، بچوں،ماں باپ اور بہن بھائیوں کی تصویریں گھومنے لگیں۔

پھرہمیں جھونپڑی میں بندکردیاگیا۔

رات کوہم نے فیصلہ کیاکہ مرناتوایک دن ضرورہے۔اپنے گلے کٹوانے اور شعلوں میں جل کرکوئلا بننے سے بہتر ہے کہ یہاں سے بھاگ نکلیں۔ہم رات گہری ہونے کاانتظار کرنے لگے،تاکہ پہرے دار جنگلی تھک کرسوجائیں یااونگھنے لگیں توہم ان پی قابوپاکرنکل بھاگیں۔


جانے رات کاکون ساپہرتھاکہ ہمیں اونگھ آنے لگی۔ہم نے جاگنے کی بڑی کوشش کی ،مگر سب ایک ایک کرکے سوتے چلے گئے پھرزور دار آندھی کے جھکڑوں سے ہماری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا تونہ وہ جھونپڑیاں تھیں نہ وہ جنگلی ،نہ درخت نہ جھاڑیاں۔

ریت کاکھلامیدان تھا،جہاں ہم پڑے تھے ہم نے پوراجزیرہ چھان مارا، مگرکوئی ایک جنگلی بھی کہیں چھپاہوانظرنہ آیا۔جانے وہ سب کہاں غائب ہوگئے تھے۔ جانے ان کاکوئی وجود تھا بھی کہ نہیں یاوہ سب بھوت تھے۔یہ خیال آتے ہی

ہمارے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

ہم اپنی کشتی کی طرف بھاگے۔خداکاشکر ہے کشتی وہاں موجود تھی۔ ہم کشتی میں سوار ہوگئے اور کئی تک سمندر میں بھٹکتے رہے پھرایک بحری جہاز والوں نے ہمیں دیکھ لیاور یوں ہم مہذب دنیا میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔

Post a Comment

0 Comments