Two Moral Stories in Urdu |بادشاہ اور 3 وزیر - سبق آموز اردو کہانی |بوڑھی عورت اور پانی کا برتن - آموز کی کہانی|

بادشاہ اور 3 وزیر - سبق آموز اردو کہانی 



ایک دن بادشاہ نے اپنے تین وزراء کو دربار میں بلایا اور تینوں کو حکم دیا کہ تینوں ایک ایک تھیلا لے کر باغ میں داخل ہوں۔

اور وہاں سے بادشاہ کے لیے مختلف اچھےاچھے پھل جمع کریں۔

وزراء بادشاہ کے اس عجیب حکم پر حیران رہ گئے اور تینوں ایک ایک تھیلا پکڑ کر الگ الگ باغ میں داخل ہوگئے۔

پہلے وزیر نے کوشش کی کہ بادشاہ کے لیے اسکی پسند کے مزیدار اور تازہ پھل جمع کرے اور اس نے کافی محنت کے بعد بہترین اور تازہ پھلوں سے تھیلا بھر لیا۔

دوسرے وزیر نے خیال کیا کہ بادشاہ ایک ایک پھل کا خود تو جائزہ نہیں لے گا کہ کیسا ہے اور نہ ہی پھلوں میں فرق دیکھے گا۔

اس لیے اس نے بغیر فرق دیکھے جلدی جلدی ہر قسم کے تازہ اور کچے اور گلے سڑے پھلوں سے اپنا تھیلا بھر لیا۔

اور تیسرے وزیر نے سوچا کہ بادشاہ کی توجہ صرف تھیلے کے بھرنے پر ہوگی۔ اس کے اندر کیا ہے، اسے بادشاہ نہیں دیکھے گا۔

یہی سوچ کر وزیر تھیلے میں گھاس پُھوس اور پتے بھر لیے اور محنت سے بچ گیا اور وقت بچایا۔

دوسرے دن بادشاہ تینوں وزراء کو اپنے تھیلوں سمیت دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔

جب تینوں دربار میں حاضر ہوئے تو بادشاہ نے تھیلے کھول کر بھی نہ دیکھے اور حکم دیا کہ تینوں کو ان کے تھیلوں سمیت 1 ماہ کے لیے دوردراز جیل میں قید کر دو۔

اب اس دوردراز جیل میں تینوں کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں تھا، سواۓ اس تھیلے کے جو انھوں نے جمع کیا تھا۔

اب پہلا وزیر جس نے اچھے اچھے پھل چن کر جمع کیے تھے، وہ مزے سے اپنے انہیں پھلوں پر گزارہ کرتا رہا۔

یہاں تک کے 1 ماہ باآسانی گزر گیا۔

اور دوسرا وزیر جس نے بغیر دیکھے تازہ خراب تمام پھل جمع کیے تھے۔ اس کے لیے بڑی مشکل پیش آئی کچھ دن تو تازہ پھل کھا لیے لیکن پھر کچے اور گلے سڑے پھل کھانے پڑے، جس سے وہ بہت زیادہ بیمار ہوگیا اور اسے بہت تکلیف اٹھانی پڑی۔

اور تیسرا وزیر جس نے اپنے تھیلے میں صرف گھاس پُھوس ہی جمع کیا تھا۔

وہ کچھ دن بعد ہی بھوک سے مر گیا کیونکہ اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔

اب

آپ اپنے آپ سے پوچھیے

آپ کیا جمع کر رہے ہیں ؟

آپ اس وقت اس باغ میں ہیں۔

جہاں سے آپ چاہیں تو نیک اعمال اپنے لیے جمع کریں اور چاہیں تو خراب اعمال؟

مگر یاد رہے جب بادشاہ کا حکم صادر ہوگا،

تو آپ کو اپنی جیل قبر میں ڈال دیا جاۓ گا۔

اس جیل میں آپ اکیلے ہونگے جہاں آپ کے ساتھ صرف آپ کے اعمال کی تھیلی ہوگی۔ تو جو آپ نے جمع کیا ہوگا، وہی آپ کو وہاں کام دے گا۔

تو آج تھوڑی سی محنت کرکے اچھی اچھی چیزیں یعنی نیک اعمال جمع کرلیں اور وہاں آسانی اور آرام والی زندگی گزاریں


بوڑھی عورت اور پانی کا برتن - آموز کی کہانی



کہتے ہیں ایک چینی بڑھیا کے گھر میں پانی کیلئے دو مٹکے تھے، جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر

 سے پانی 

بھر کر گھر لاتی۔ ان دو مٹکوں میں سے ایک تو ٹھیک تھا مگر دوسرا کچھ ٹوٹا ہوا۔ ہر بار ایسا ہوتا کہ جب یہ بڑھیا نہر سے پانی لے کر گھر پہنچتی تو ٹوٹے ہوئے مٹکی کا آدھا پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا۔ جبکہ دوسرا مٹکا پورا بھرا ہوا گھر پہنچتا۔


ثابت مٹکا اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن تھا تو ٹوٹا ہوا بالکل ہی مایوس۔ حتیٰ کہ وہ تو اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا تھا کہ آخر کیونکر وہ اپنے فرائض کو اس انداز میں پورا نہیں کر پاتا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔اور پھر مسلسل دو سالوں تک ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ لئے ٹوٹے ہوئے گھڑے نے ایک دن اس عورت سے کہا: میں اپنی اس معذوری کی وجہ سے شرمندہ ہوں کہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر اتنی دور سے لاتی ہو اس میں سے کافی سارا صرف میرے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر جاتا ہے۔


گھڑے کی یہ بات سن کر بڑھیا ہنس دی اور کہا: کیا تم نے ان سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جسطرف سے تم کو اٹھا کر لاتی ہوں ادھر تو پھولوں کے پودے ہی پودے لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں اگا ہوا۔

مجھے اس پانی کا پورا پتہ ہے جو تمہارے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گرتا ہے، اور اسی لئے تو میں نے نہر سے لیکر اپنے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیئے تھے تاکہ میرے گھر آنے تک وہ روزانہ اس پانی سے سیراب ہوتے رہا کریں۔ ان دو سالوں میں ، میں نے کئی بار ان پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر اپنے گھر کو سجایا اور مہکایا۔ اگر تم میرے پاس نا ہوتے تو میں اس بہار کو دیکھ ہی نا پاتی جو تمہارے دم سے مجھے نظر آتی ہے۔


یاد رکھئے کہ ہم سے ہر شخص میں کوئی نا کوئی خامی ہے۔ لیکن ہماری یہی خامیاں، معذوریاں اور ایسا ٹوٹا ہوا ہونا ایک دوسرے کیلئے عجیب اور پر تاثیر قسم کے تعلقات بناتا ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ان کی خامیوں کے ساتھ ہی قبول کریں۔ ہمیں ایک دوسرے کی ان خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے جو اپنی خامیوں اور معذوریوں کی خجالت کے بوجھ میں دب کر نہیں دکھا پاتے۔ معذور بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنی معذوری کے ساتھ ہی اس معاشرے کیلئے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔


جی ہاں، ہم سب میں کوئی نا کوئی عیب ہے، پھر کیوں نا ہم اپنے ان عیبوں کے ساتھ، ایک دوسرے کی خامیوں اور خوبیوں کو ملا کر اپنی اپنی زندگیوں سے بھر پور لطف اٹھائیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو اس طرح قبول کرنا ہے کہ ہماری خوبیاں ہماری خامیوں پر پردہ ڈال رہی ہوں


Post a Comment

0 Comments