A Short Urdu Story Ghairat mand غیرت مند| Bright Stories Club

غیرت مند....

 اردو کی ایک مختصر کہانی



انسان فطری طور پرانتہا پسند واقع ہوا ہے۔ نفرت کرنے لگے تو نرم و نازک پھولوں کوبھی بے دردی سے مسل دے اور پیار کرنے پرآئے تو اس شدت سے کہ کانٹوں کو دامن میں سجائے ۔کبھی پیار کی شبنم کا ایک قطرہ بھی ہمیں سیراب کر دے اور کبھی چاہتوں کے امڈتے دریا بھی ہماری تشنہ لبی کے آگے ہار مان جائیں۔ بدگمانی کی کیفیت طاری ہو تو اپنا بھی بیگانہ لگے اور خوش گمانی ہوتو دشمن کور فیق سمجھ کر گلے سے لگا لیں۔ ناصر میرا چچازاد تھا۔ مجھے چاہتا تھا۔ اس کی چاہت بھی امڈتے دریا کی مانندتھی ۔ مگر میں اس سے نفرت کرتی تھی ۔ وہ میری منزل نہ تھا۔ مجھے دیہاتی ماحول بھی پسند نہ تھا۔


میری آنکھوں میں بسنے والا شہزادہ خوب صورت پڑھا لکھا اور سوٹ بوٹ میں ملبوس شخص تھا۔ جو شہر میں رہا اور پلا بڑھا ہو۔ میرا گاوں پنجاب کے شہر راولپنڈی کے جنوب مغربی علاقے کی طرف بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہمارا گاؤں دور جدید کی سہولتوں سے محروم تھا۔ ایک کچی سڑک پنڈی سے ہمارے گاؤں تک جاتی تھی۔ اس روٹ پر صرف دو بسیں چلا کرتی تھیں ۔ گاؤں میں ایک مڈل اسکول تھا۔ جہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے پڑھتے تھے۔ بجلی نہ تھی۔ اسپتال کی کمی بھی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔ ہمارے گاؤں کے کئی لوگ بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے تھے۔ ناصر اور میں اکٹھے ہی گاؤں کے اسکول میں پڑھتے تھے۔ ناصر کے والد میرے ابا جان سے بڑے تھے۔ گاؤں میں ہماری جائیداد سب سے زیادہ تھی۔ میرے چچا اور والد دونوں بھائی مل کر زمینداری کرتے تھے۔ آپس میں اتفاق اور محبت مثالی تھی ۔ ناصر اور میں ہم عمر تھے۔ قدرت نے مجھے بے حد حسن سے نوازا تھا۔ جب کہ ناصر شکل وصورت کے لحاظ سے بہت پیچھے تھا۔



لگتا تھا وہ ہمارے خاندان کا فرد ہی نہیں ہے۔ اس کا سیاہ رنگ اور پکا چہرہ مجھے بالکل نہیں بھاتا تھا۔ میں بچپن ہی سے اسے ناپسند کرتی تھی۔ بدصورت ہونے کے باوجودوہ کلاس کا ہونہار طالب علم تھا۔ اساتذہ اسے بہت چاہتے تھے۔ مگر میں ہر معاملے میں اسے نیچاہی دکھانے کی کوشش کرتی تھی۔ مڈل کا امتحان ناصر نے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ جب کہ میں بمشکل پاس ہوئی۔ اس کے بعد حالات نے اجازت نہ دی تو ناصر نے تعلیمی سلسلہ ختم کر کے زمینداری میں باپ اور چچا کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ جب کہ میں گھر کی ہو کر رہ گئی۔ کچھ عرصے بعد جب مجھے علم ہوا کہ میری اور ناصر کی نسبت بچپن میں ہی طے ہوگئی تھی تو میں تڑپ اٹھی۔ میں کسی صورت میں بھی ناصر کی ہمسفرنہیں بنتا چاہتی تھی ۔ مگراب انکار کرنا بھی میرےاختیار میں نہ تھا۔ پھر بھی میں نے اپنی ماں کو بتادیا کہ میں ناصر کو ناپسند کرتی ہوں۔ اس لئے میں اس سے شادی نہیں کروں گی۔ ماں نے میری بات سنی تو پریشان کن لہجے میں بولی۔


سلمٰی بیٹی ناصر جیسا بھی ہے تمہیں اس سے شادی کرنی ہی ہوگی ۔ تم دونوں کی نسبت بچپن میں ہی طے پاگئی تھی۔ ہمارے خاندان کی یہ ریت رہی ہے کہ جو رشتہ ایک بارے


ہو جائے وہ ٹوٹا نہیں کرتا۔ اس لئے تم سب کچھ بھول جاؤ اور ناصر کے سوا کسی کے بارے میں نہ سوچو۔


مجبور مجھے خاموش ہو جانا پڑا لیکن میں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے میں ناصر


سے شادی نہیں کروں گی ۔ خواہ اس کے لئے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ ناصر ہمارے گھر آتا رہتا تھا۔ مگر میں اس سے بات کرنا بھی گوارہ نہ کرتی تھی۔ مجھے اس کی شکل سے بھی نفرت تھی۔ ناصر بھی بخوبی جانتا تھا کہ میں اسے ناپسند کرتی ہوں مگر اس کے باوجود میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت کے دیپ جلتے دیکھے تھے۔ گاؤں کے لوگ ناصر کے کردار کی بہت تعریفیں کرتے تھے۔ وہ گاؤں کے لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوتا اور غریبوں کی بے لوث مدد کرتا تھا۔ میں کسی کی زبان سے اس کی تعریف سنتی تو میرے اندر ایک آگ سی لگ جاتی۔ میں بھی دل بھر کر اس کی برائی کرتی اور دل کی بھڑاس نکال لیتی۔ یہ میری دعاؤں کے اثر تھا۔ کہ قدرت کا کرشمہ کہ ایک روز میرے ابا جان اور تایا جان میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا۔ بات لڑائی جھگڑے تک جا پہنچی۔ وہ جو کبھی ایک جان تھے۔ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔ میں جانتی تھی کہ زیادتی میرے ابا جان کی ہے مگر وہ پھر بھی کسی صورت ہار ماننے کو تیار نہ تھے۔




میرے لئے تو یہ جھگڑا زندگی کی نوید بن چکا تھا۔ میں امی اور ابا کے ساتھ تھی ۔ گاؤں کے لوگوں نے بجاۓ صلح کرانے کے اس ناراضگی کو اور بھی ہوا دی اور گائی بجھائی کر کے اس مسلے کو اور الجھا دیا۔ دونوں بھائی ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے ۔ تمام جائیداد کا بڑارہ ہوگیا۔ میری اور ناصر کی منگنی بھی توڑ دی گئی۔ میرے من میں گھنٹیاں سی نے انھیں ۔ میں نے سجدہ شکر ادا کیا کہ میرے من کی مراد پوری ہوگئی تھی۔ ایک روز ناصراچانک ہمارے گھر آگیا اور میرے ابا جان سے کہنے لگا چچاجان! آپ چھوٹے ہیں غلطی اور زیادتی بھی آپ کی

ہے۔ اس لئے بڑے بھائی سے معافی مانگ لیں اور خاندان کی عزت کو ماننے والوں کے سامنے نماشانہ بنے دیں۔ میں نے اور ابا جان نے ناصر کی اس جرات پر اس کی خوب خبر لی اور اسے کھری کھری سنا کر بھیج دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ آج کے بعد وہ ہماری حویلی میں قدم نہ رکھے۔ یوں ہی چار سال بیت گئے ۔ ہم ایک ہو کر بھی ایک دوسرے کے لئے اپنی بن گئے۔ ابا جان نے میری خواہش کی تکمیل کردی۔ ہمارے دور کے رشتے دار عرصہ سے لاہور میں مقیم تھے۔ میری شادی ان لوگوں میں کر دی گئی شفراد بہت ہی خوب صورت اور اسمارٹ تھا۔ وہ میرا آئیڈیل تھا۔ لاہور میں کسی سرکاری ادارے میں ملازمت کرتا تھا۔ میں شادی کے بعد لاہور چلی گئی اور شہزاد کے ہمراہ ایک پرسکون زندگی گزارنے گی۔ ناصر کو میں ایک خواب سمجھ کر بھول گئی ۔ میں گاؤں میں کم ہی جاتی تھی۔ میں نے سنا تھا کہ ناصر نے عمر بھر شادی نہ کرنے کا عہد کر لیا ہے۔ مجھے بھلا اس سے کیا غرضھی۔ میری طرف سے وہ جہنم میں چلا جائے۔ میں تو اس کا نام سنا بھی گوارہ نہ کرتی تھی۔ اسی لئے میں کم ہی جاتی تھی۔ اگر جاتی تو بھی ایک دن اور رات ظاہر کر لاہور آ جاتی تھی ۔ شہری زندگی مجھے راس آگئی تھی ۔ سردیوں


کے دن تھے۔ عید کی آمد متھی۔ ابا جان کا اصرار تھا کہ اس مرتبہ میں اور شہر ادعیدان کے ہمراہ گاوں میں منائیں۔ ہم جب راولپنڈی کے بس اسٹاپ پر پہنچ تو ہمارے گاؤں جانے والی آخری بس اسٹینڈ پر کھڑی تھی ۔ شام ڈھلنے والی تھی۔ موسم بھی ابر آلود تھا۔ بارش کا قوی امکان تھا۔ بس خالی ہی تھی۔ میں اور شہزادفرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئے۔ آہستہ آہستہ مسافر آتے گئے۔ بس جب چلی تو اس میں تل دھرنے کو جگہ نتھی۔ بس میں مسافروں میں میں واحد عورت تھی ۔ کئی لوگ بس کے اندر کھڑے تھے اور کئی چھت پر بیٹھے تھے۔ بس آہستہ آہستہ چلتی ہوئی شہری حدود سے باہر گئی اور گاؤں جانے والی بھی سڑک پر آ گئی۔ اس سڑک پر روشنی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ کیونکہ اس دور میں اس علاقے میں بجلی ہی تھی۔ ابھی بس نے دس بارہ میل کا سفر طے کیا ہوگا کہ بس ایک جھٹکے سے رک گئی اور ڈرائیور نے انہین بھی بند کر ڈالا۔ شہزاد نے جس بھری نظروں سے ڈرائیور کی طرف دیکھا کہ اس نے گاڑی کیوں بند


کردی ہے۔ اتنے میں ایک مضبوط اور لمبے قد کا چہرہ نقاب میں چھپائے ڈرائیور کے پیچھے والی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ریوالور ہرا رہا تھا۔ وہ بہت ہی غضبناک


لہجے میں بولا۔


خبردار! اگر تم میں سے کسی نے ہلنے یا گڑ بڑ کرنے کی کوشش کی تو بھون کر رکھ دوں گا۔ بس میں سناٹا چھا گیا۔ تمام مسافر ہم گئے اور آنے والے برے وقت کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر بعد اس نقاب پوش نے چہرے سے نقاب اتارا اور کہنے لگا۔


تم لوگ مجھے پہچان گئے ہوئے اگر نہیں تو بتا دوں کہ میں جہانی ڈکیت ہوں‘‘ سنا ٹااور بھی گہرا ہو گیا۔ تمام مسافر اس کا نام سن کر خوفزدہ ہو گئے۔ میں پہلی بار جهانی ڈکیت کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا۔ لوگ اس سے خوف



کھاتے تھے۔ وہ کئی کیسوں میں پولیس کو مطلوب تھا۔ اس کی گرفتاری پر انعام بھی مقرر تھا۔ مگر پولیس اس کے باوجود اسے گرفتار کرنے میں ناکام ہو چکی تھے۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ جهانی خودبھی بڑامظلوم ہے۔ اسے حالات نے اس مقام پر پہنچایا ہے۔ گاوں کے زمیندار نے اس کی بہن کے بے 


آبرو کیا تھا۔ وہ زمیندار کا مزارع تھا۔ اس کا ہر تم سہتا تھا مگر وہ ظلم برداشت نہ کر سکا اور گاؤں کے زمیندار کوقتل کر کے فرار ہو گیا اور پھر وہ ڈاکو بن گیا۔ جب کہ کچھ کہتے تھے کہ جهانی بچپن میں ہی اغوا ہو گیا تھا۔ کچھ کہتے تھے کہ اس کا بات بھی ڈاکو تھا اور یہ سب کچھ اسے ورثے میں ملا ہے۔ نہ جانے اس میں حقیقت کیاتھی مگر اس وقت ہم سب کو ان باتوں

سے کوئی غرض نہیں۔ بلکہ ہر ایک کو اپنی اپنی جان بچانے کی فکر پڑی تھی۔ چند لیے اس نے پوری بس کے مسافروں کا جائزہ لیا اور پھر وہ میری طرف بڑھا اور میرا ہاتھ برقعے میں سے


نہ کر پکڑ لیا اور ہنسنے لگا۔ چلو میرے ساتھ ‘‘ شبرا بھلا یہ کیسے برداشت کر سکتا کہ کوئی اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی عزت پر ہاتھ ڈالے۔ وہ شہری بابو ہونے کے باوجود اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور جہانی سے الجھ پڑا۔


ذلیل انسان اشرم نہیں آتی تمہیں کیا گھر میں تمہاری ماں نہیں نہیں ہیں۔ یہ کہ کر شہزاد نے میرا ہاتھ جہانی کی گرفت سے آزاد کرالیا۔ میں نے جہانی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ غصے میں میرا جسم تھرتھر کانپ رہا تھا۔ مگر جهانی پر کسی بات کا اثر نہ ہور ہا تھا۔ اس نے پھر میرا بازو پکڑ لیا۔ شہزاد کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔ اس نے ایک بھر پور تھپٹر جهانی کے چہرے پر


جڑ دیا۔ جس کی آواز تمام مسافروں نے سنی۔ جہانی کی برداشت کی حد ختم ہوگئی۔ اس نے میرا بازو چھوڑ دیا اور شہزاد کوگھسیٹ کر بس سے باہر لے گیا اور اسے بے دردی سے مارنے لگا۔ میں نے کافی شور مچایا مگر کسی نے بھی میری آہ و فریاد نہ سنی۔ سب انجان بن کر ایک انسان کی بے بسی اور ایک درندے کے وحشیانہ پن کا تماشا دیکھتے رہے۔ شہزاد جهانی کی مار کھا کر بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ جہانی پھر بس کے اندر آ گیا اور مجھے بھی گھسیٹتا ہوا باہر


لے گیا۔ میں بہت واویلا کیا مگر کوئی بھی میری مد دکو نہ آیا۔ سب بزدل تماشائی بنے بیٹھے رہے۔ میں نے روتے ہوئے جہانی کو خدا اور رسول کے واسطے دیئے اور کہا میں اس کی بیٹیوں کی طرح ہوں ۔ وہ بھی پریم کرے اور مجھے چھوڑ دے مگر جهانی پرمیری آہ وزاری کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس کا تو ضمیر ہی مر چکا تھا۔ مسافروں میں سے کسی میں اتنی ہمت اور جرات نتھی کہ آگے بڑھ کر جہانی کا راستہ روکنا یا اس ظلم اور زیادتی کے خلاف سینہ تان کر


کھڑا ہو جاتا۔ سب کے سب بس کی کھڑکیوں میں سے ایک مجبور اور بے بس عورت کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ جہانی مجھے لے کر آگے بڑھنے لگا۔ میں مزاحمت کی اور اس کو سنے گی مگر میری مزاحمت نے جہانی کے غصے کو اور ہوا دی۔ اس نے میرے شہزاد پر گولیاں برسا کر میری آنکھوں کے سامنے ہی مارڈالا۔ میں محوں میں بیوہ ہوگئی۔ میں شہزاد کی لاش سے لپٹ کر رونا چاہتی تھی مگر جہانی نے مجھے ایسانہ کرنے دیا۔ وہ مجھے گھسیٹ کر آگے لے گیا اور پھر ایک جگہ رک کر بس کے مسافروں کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔



میں اس لڑکی کو لے جارہا ہوں اگر کسی مائی کے لال میں ہمت ہے تو آکر اسے بچالے۔ میرا نام جہانی ڈکیتی اور جہانی نے بھی ہار نہیں سیکھا۔“ یہ کہ کر جہانی پیٹا۔ میرا ہاتھ اس کی مضبوط گرفت میں تھا۔ میں مسلسل چلارہی تھی اور حسرت بھری نگاہوں سے مسافروں کی طرف دیکھ رہی تھی کہ شاید کوئی غیرت مند مجھے بچالے۔ میرے لبوں سے آہیں اور دعائیں ایک ساتھ نکل رہی تھیں کہ اے پروردگار! اے رب ذوالجلال میری مدد فرما۔“ شاید وہ دعا کی مقبولیت کا لمحہ تھا۔ خدا نے میری سن لی تھی ۔ بس کی چھت سے ایک مسافر


بچے کودا اور ہم تک آ پہنچا۔ ان نے مجھے جہانی کی گرفت سے محوں میں آزاد کرایا اور پھر سی جھوکے شیر کی مانند جهانی پرٹوٹ پڑا۔ جہانی اس اچانک حملے سے گھبرا گیا۔ ریوالور اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوگئے ۔ جہانی نے اس مسافر کوزیرکرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس مسافر نے بھی بہت زور لگایا مگر


جهانی اس کے سامنے چٹان ثابت ہورہا تھا۔ اس مسافر نے اپنی شلوار کے پینے سے خنجر نکال لیا اور جہانی پر میں پڑا دیکھتے ہی دیکھتے اس نے جہانی کے جسم میں کئی سوراخ کر  




ڈالے۔ وہ بری طرح لہولہان ہو گیا اور کچھ دیر تڑپ کر وہ زندگی کی قید سے آزاد ہو گیا۔ اب مسافر بس سے نیچے اتر آئے اور اس مسافر کی طرف بڑھے جو ایک طرف بیٹھا ہانپ رہا تھا۔ اس کے جسم پر کئی زخم آئے تھے وہ کسی قدر اندھیرے میں تھا۔ میں اس کی صورت نہیں دیکھ پائی تھی ۔ مشرق کی جانب سے چاند طلوع ہورہا تھا۔ لکی ہلکی روشنی پھیلے گی تھی۔ ایک دو مسافر شفراد کی لاش کی طرف بڑھے اور کچھ میری طرف آگئے۔ میں اپنی کلائی پڑے زمین پر بے سدھ پڑی تھی۔ میرے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ مجھ میں اٹھنے کی تاب ہی نتھی۔ ویسے بھی اک کے گرد کافی مسافرجمع ہو گئے تھے میں نتظرتھی کہ لوگ مجھے خوشخبری دیں کہ شہر زندہ ہے۔ میں لاشعوری طور پر اسے دیکھنے سے کترا رہی تھی۔ شاید میں خود کو اس کی موت کا یقین نہیں دلا نا چاہتی تھی۔ میں آئی اور آہستہ آہستہ اسانی مسافر کی طرف بڑھی۔ جو میری خاطر زخمی ہوگیا تھا۔ میں نے اپنا دوپٹہ اتار کر ایک مسافرکو دیا اور کہا۔ ”بیان کے زخموں پر باندھ دو اس مسافر نے دو پٹا چھاڑ کر اس کے زخموں پر باندھنا شروع کیا تو میں بھی اس کے قریب ہوگئی۔ میں نے اس مسافر کو دیکھا تو میرا وجود زلزلوں کی زد میں آگیا۔ وہ ناصر تھا۔ میرا کزن، میرا سابق منگیتر، میں اور ناصر کے قدموں میں جھک گئی۔ میں نے روتے ہوئے


ناصر میں بھ ی کم ہیں مجھ سے نفرت ہوئی ہوگی اور میری شکل دیکھا بھی گوارہ نہ کرو گے مگر آج جو کچھ تم نے کیا وہ میں زندگی بھر بھولوں گی۔“ ناصر نے میری طرف دیکھا اور کراہتے ہوئے بولا۔


سلمی ! عزتیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ یقین کرتا لئی مجھے قطعی ہی معلوم نہیں تھا کہ جہانی کا شکار ہونے والی لڑکی کون ہے۔ بیتو مجھے اب پتا چلا ہے کہ وہ تم ہولی شاید قدرت کو ہمارامن منظور نہ تھا۔ میں قدرت کے اس فیصلے پر شاکر ہوں تمہاری جگہ کوئی لڑکی بھی ہوتی تو تب بھی میں وہی کچھ کرتا جواب کیا ہے۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں تمہارے خاوند کونہیں بچا سکا۔ شاید تمہاری قسمت میں یہی لکھا تھا۔“ یہ کہ کر ناصر نے میرے سر پر


ہاتھ رکھ دیا۔


میری آنکھوں سے تشکر کے آنسو بہہ نکلے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر شہزاد کے پاس لے آیا اورتب میں وہ خوفناک منظر دیکھنے پر مجبور ہوگئی ۔ جس سے میں آنکھیں چرارہی تھی ۔ شہر ادلہولہان تھے اور ان کی ویران آنکھوں میں جیسے تشکر بھرا ہوا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ ناصر کے شکر گزار ہوں کہ اس نے ان کی عزت لٹے سے بچالی۔ مجھے رہ رہ کر اپنی سوچ پرافسوس ہورہا تھا کہ میں زندگی بھر ناصر کی بدصورتی کی وجہ سے اس سے نفرت کرتی رہی۔ میں نے اس


کے کردار کی خوبصورتی پر توجہ نہ دی۔ آج مجھے پتا چلا تھا کہ گاؤں کے بھی لوگ اس کی تعریفیں کیوں کرتے تھے وہ واقعی تعریف کے قابل تھا۔ ناصر پر مقدمہ چلاگر جلد ہی اسے نہ صرف بری کر دیا گیا بلکہ تعریفی اسناد اور انعام سے بھی نوازا گیا۔ جب ان حالات کا علم میرے والدین کو ہوا تو ان کے سربھی ناصر کی عظمت کے سامنے جھک گئے ۔ میرے ابا جان


نے ناصر کے والد سے معافی مانگ لی۔ برسوں بعد بھائیوں میں خود بخو صلح ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد میرے والدین نے خود چاہا کہ میری اور ناصر کی شادی کر دی جائے۔ جب مجھے اور ناصر کو والدین کے فیصلے کاعلم ہواتو ہم دونوں نے ان کا یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اس


لئے کہ میں ناصر کو بھائی بنا چکی تھی۔ میں اس فخر میں رہنا چاہتی تھی کہ میں ایک غیرت مند بھائی کی بہن ہوں ۔ میرا کوئی بھائی جو نہیں تھا۔


Post a Comment

0 Comments